Saturday 22 November 2014

مجھ میں وہ تاب ضبط شکایت کہاں ہے اب

مجھ میں وہ تابِ ضبطِ شکایت کہاں ہے اب
چھیڑو نہ تم کہ میرے بھی منہ میں زباں ہے اب
وہ دن گئے کہ حوصلۂ ضبطِ راز تھا
چہرے سے اپنے شورشِ پنہاں عیاں ہے اب
جس دل کو قیدِ ہستئ دنیا سے ننگ تھا
وہ دل اسیرِ حلقۂ زلفِ بتاں ہے اب
آنے لگا جب اس کی تمنا میں کچھ مزا
کہتے ہیں لوگ جان کا اس میں زیاں ہے اب
لغزش نہ ہو بلا ہے حسینوں کا التفات
اے دل سنبھل وہ دشمنِ دِیں مہرباں ہے اب
اک جرعۂ شراب نے سب کچھ بھلا  دیا
ہم ہیں، اور آستانۂ پیرِ مغاں ہے اب
ہے وقتِ نزع، اور وہ آیا نہیں ہنوز
ہاں جذبِ دل مدد کہ دمِ امتحاں ہے اب
ہے دل غمِ جہاں سے سبکدوش ان دنوں
سر پڑتا سوجھتا کوئی بارِ گراں ہے اب
حالیؔ! تم اور ملازمتِ پیرِ مے فروش
وہ علمِ دِیں کدھر ہے وہ تقویٰ کہاں ہے اب

الطاف حسین حالی

No comments:

Post a Comment