Saturday 22 November 2014

جدا ہوں یار سے ہم اور نہ ہوں رقیب جدا

جدا ہوں یار سے ہم، اور نہ ہوں رقیب جدا
ہے اپنا اپنا مقدر ۔۔۔  جدا نصیب جدا
جدا نہ دردِ جدائی ہو، گر مِرے اعضاء
حروفِ درد کی صورت ہوں، ہے طبیب جدا
ہے اور علم و ادب، مکتبِ محبت میں
کہ ہے، وہاں کا معلم جدا، ادیب جدا
فراقِ خلد سے گندم ہے سینہ چاک اب تک
الٰہی ہو نہ وطن سے کوئی غریب جدا
کیا حبیب کو مجھ سے جدا فلک نے اگر
نہ کر سکا مِرے دل سے غمِ حبیب جدا
کریں ‌جدائی کا کس کس کی رنج ہم، اے ذوقؔ
کہ ہونے والے ہیں سب ہم سے عنقریب جدا

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment