Saturday 22 November 2014

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشق بے دم کے پاس

کون سا ہمدم ہے تیرے عاشقِ بے دَم کے پاس
غم ہے اس کے پاس ہمدم، اور وہ ہے دَم کے پاس
ہم کو کیا ساقی، جو تھا جامِ جہاں بِیں جَم کے پاس
تیرا جامِ بادہ ہو، اور تُو ہو  اِس پُرغم کے پاس
خط کہاں آغاز ہے پشتِ لبِ دلدار پر
ہیں جنابِ خضرؑ آئے عیسٰئ مریم کے پاس
مردمک کے پاس ہے یہ اشکِ خونیں کا ہجوم
یا دھرے یاقوت ہیں یہ دانۂ نیلم کے پاس
روح اس آتش بجاں کی بعدِ مُردن جوں پتنگ
آئے گی اڑ کر چراغِ خانۂ ماتم کے پاس
کس کی قسمت ہے کہ زخمِ تیغِ قاتل ہو نصیب
جان سے جائیں، نہ جائیں گے مگر مرہم کے پاس
کیا مزے لے لے کے گل کھائیں اگر آ جائے ہاتھ
یہ جو چھلا آپ کی انگلی میں ہے خاتم کے پاس
زلف سے بے وجہ خطِ سبز ہم پہلو نہیں
ہے لہکتا عشق پیچاں سنبلِ پُرخم کے پاس
واہ صیادِ اجل اور واہ صیادی کا پیچ
کِھچ کے ہے اسفندیار آیا کہاں رستم کے پاس
دیکھو فیاضِ ازل نے کیا دِیا آنکھوں کو فیض
کاسہ در کف ہو کے یَم آتے ہیں ان کی نم کے پاس
ہے جو قسمت میں، تو دریا بھی کبھی ہو جائے گا
آ لگا ہے اپنا قطرہ بھی کنارِ یَم کے پاس
کر کے بحر و قافیہ تبدیل، لکھ اور اک غزل
بیٹھ کوئی دَم تو اے ذوقؔ اور اس پُرغم کے پاس​

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment