Wednesday 19 November 2014

تجھ کو بھولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا

تجھ کو بھولے ہیں تو کچھ دوش زمانے کا نہ تھا
اب کے لگتا ہے کہ یہ دکھ ہی ٹھکانے کا نہ تھا
یہ جو مقتل سے بچا لائے سروں کو اپنے
ان میں اک شخص بھی کیا میرے گھرانے کا نہ تھا
ہر برس تازہ کیا عہدِ محبت کو عبث
اب کھلا ہے کہ یہ تہوار منانے کا نہ تھا
اب کے بے فصل بھی صحرا گل و گلزار سا ہے
ورنہ یہ ہجر کا موسم تِرے آنے کا نہ تھا
دوش پر بارِ زمانہ بھی لیے پھرتے ہیں
مسئلہ صرف تِرے ناز اٹھانے کا نہ تھا
یار! کیا کیا تِری باتوں نے رلایا ہے ہمیں
یہ تماشا سرِ محفل تو دکھانے کا نہ تھا
کوئی کس منہ سے کرے تجھ سے شکایت جاناں
جس کو تُو بھول گیا، یاد ہی آنے کا نہ تھا
آئے دن اک نئی آفت چلی آتی ہے، فرازؔ
اب پشیماں ہیں کہ یہ شہر بسانے کا نہ تھا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment