شبِ نشاط تھی یا صبحِ پُر ملال تھی وہ
تھکن سے چُور تھا میں نیند سے نڈھال تھی وہ
میں اس کی ہمسفری میں بھی دل گرفتہ رہا
کہ ہر قدم پہ جدائی کا احتمال تھی وہ
اِدھر اُدھر کے بھی کردار آتے جاتے رہے
وہ پیرہن تھی، مگر جسم و جاں رہی میری
کہ جو بھی جیسا بھی موسم تھا حسبِ حال تھی وہ
تمام عمر اگر زندگی نے زخم دیے
تمام عمر کے زخموں کا اندمال تھی وہ
یہ عمر بھر کا اثاثہ اسی کے نام تو ہے
اگرچہ میری رفاقت میں چند سال تھی وہ
فرازؔ یاد ہے اب تک سپردگی اس کی
ز فرق تا بقدم خواہشِ وصال تھی وہ
احمد فراز
No comments:
Post a Comment