Thursday 20 November 2014

رنجش کوئی رکھتا ہے تو پھر بات بھی سن لے

رنجش کوئی رکھتا ہے تو پھر بات بھی سن لے
وہ مجھ سے ذرا صورتِ حالات بھی سن لے
دھڑکن کی زباں سے میں بتاؤں گا کسی دن
کیا اس کے لیے ہیں مِرے جذبات بھی سن لے
کس طرح سے رسوائی گوارا ہوئی ہم کو
جو دل نے سہے پیار کے صدمات بھی سن لے
اس پھول سے مہکے جو مِری شام کا آنگن
وہ اپنی کہے، میرے خیالات بھی سن لے
تو برف کی وادی کا مکیں ہے، کسی لمحے
شعلوں کی طرح ہیں مِرے دن رات بھی سن لے

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment