کچھ اس ادا سے میرے یار سرکشیدہ ہوئے
کہ فتح پا کے بھی قاتل علم دریدہ ہوئے
عجیب طور سے ڈوبا ہے ڈوبنے والا
کہ ساحلوں کے بگولے بھی آبدیدہ ہوئے
جو اپنے سائے کی قامت سے خوف کھاتے ہیں
میں چپ رہا تو اٹھیں مجھ پہ انگلیاں کیا کیا
زباں ملی تو مرے حرف ناشنیدہ ہوئے
ہماری لاش سے گزرے تو بے خبر گزرے
وہ جن کے نام پہ ہم لوگ سربریدہ ہوئے
جنہیں غرور تھا اپنی ستمگری پہ بہت
ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی ستم رسیدہ ہوئے
عصائے حق ہے میسر نہ تختِ دل محسنؔ
ہم ایسے لوگ بھی کس سن میں سن رسیدہ ہوئے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment