Wednesday, 19 November 2014

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل، یہ آسیب کی نگری، مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تُو کب سے مہمان ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرےہ مفت میں گھر ویران ہوا
اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا 
یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment