Wednesday 19 November 2014

کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا

کب تک تُو اونچی آواز میں بولے گا
تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا
اپنے آنسو اپنی آنکھ میں ‌رہنے دے
ریت پہ کب تک ہیرے موتی رولے گا
آؤ شہر کی روشنیاں ہی دیکھ آئیں
کون ہماری خالی جیب ٹٹولے گا
لاکھ مرے ہونٹوں پر چپ کی مہریں ہوں
میرے اندر کا فنکار تو بولے گا
دیکھ وہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے
اپنا سارا زہر تجھی میں گھولے گا
اے سوداگر! چاہت کی جاگیروں کے
کس میزان میں‌ تو اس جنس کو تولے گا
محسنؔ! اس کی نرم طبیعت کہتی ہے
پل دو پل وہ میرے ساتھ بھی ہو لے گا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment