لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو جفا کی، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بدگمانی شہر میں کس نے پھیلا دی، جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتوں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو
درحقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسنؔ تو بھی تھا ضدی، انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment