Wednesday, 19 November 2014

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

لغزشوں سے مارا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دونوں انساں ہیں خدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو جفا کی، میں وفا کی راہ پر ہیں گامزن
پیچھے مڑ کر دیکھتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
تو مجھے، میں تجھے الزام دھرتا ہوں
اپنے من میں جھانکتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
مصلحت نے کر دیے دونوں میں پیدا اختلاف
ورنہ فطرت کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
بدگمانی شہر میں کس نے پھیلا دی، جبکہ
ایک دوجے سے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جرم کی نوعیتوں میں کچھ تفاوت ہو تو ہو
درحقیقت پارسا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
جان محسنؔ تو بھی تھا ضدی، انا مجھ میں بھی تھی
دونوں خودسر تھے جھکا تو بھی نہیں میں بھی نہیں 

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment