Thursday 20 November 2014

مجھے حوصلہ تو دیتے جو مرے شریک غم ہیں

مجھے حوصلہ تو دیتے جو مرے شریکِ غم ہیں
میں بھگت رہا ہوں تنہا جو عذاب بیش و کم ہیں
کوئی پھول جیسی تتلی، نہ ستارے جیسا جگنو
تیرے بعد بس اندھیرے سرِ باغ ہمقدم ہیں
مجھے چھوڑنے سے پہلے یہ جتا دیا تھا اس نے
یہ کٹھن رہِ سفر ہے کئی اس میں پیچ و خم ہیں
جو بچا رہے ہیں شمعوں کو ہوا کی دسترس سے
وہی لوگ ہیں معزز، وہی شہر محترم ہیں
مِرا کمرہ بارشوں میں کبھی بھیگتا نہیں ہے
مِری ادھ کھلی بیاضیں مِرے آنسوؤں سے نم ہیں
جسے چاہنے کے غم سے مِری الجھنیں بڑھی ہیں
وہی مجھ سے پوچھتا ہے، تمہیں‌ اور کتنے غم ہیں

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment