Sunday 23 November 2014

میں سمندر ہوں کوئی آ کے کھنگالے مجھ کو

میں سمندر ہوں، کوئی آ کے کھنگالے مجھ کو
بے کراں پیار کے کوزے میں بسا لے مجھ کو
میں اندھیرے کے مقابل انہیں لے آیا ہوں
اپنے اندر نظر آئے جو اجالے مجھ کو
چل پڑا ہوں میں کسی منزلِ گل کی جانب
پھول لگنے لگے اب پاؤں کے چھالے مجھ کو
ریزہ ریزہ ہوں پہ یلغار کروں تاروں پر
ایسا جھونکا کوئی آئے جو اچھالے مجھ کو
میں گنہ کر کے چلا آؤں گا پھر دنیا میں
دیکھ لے کر کے تُو جنت کے حوالے مجھ کو
پھر مرے جسم کے تاروں کا دوپٹہ بُن لے
پہلے کیکر کے تُو کانٹے میں پھنسا لے مجھ کو
تُو گلاب اور مِرا رنگ ہے سرسوں جیسا
تُو کبھی میرے لہو سے ہی سجا لے مجھ کو
برف گرتی ہے تو میں اور سُلگ اٹھتا ہوں
اور پگھلاتے ہیں یہ برف کے گالے مجھ کو
کس بلندی پہ حزیںؔ میری نظر جا پہنچی
کتنے بونے نظر آتے ہیں ہمالے مجھ کو

حزیں لدھیانوی

No comments:

Post a Comment