Sunday 23 November 2014

امیر شہر کے دست ہنر کا ذکر نہیں

امیرِ شہر کے دستِ ہنر کا ذکر نہیں
تمام شہر جلا اس کے گھر کا ذکر نہیں
پڑھا ہے ہم نے بہت ہاتھ کی لکیروں کو
کہیِں معاہدۂ خیر و شر کا ذکر نہیں
تمہارے حسن کی تاریخ نامکمل ہے
کسی جگہ مرے حسنِ نظر کا ذکر نہیں
صلیب و دار کے سائے میں ہے تمام سفر
میں جس سفر میں ہوں اس میں شجر کا ذکر نہیں
تمہاری سنگدلی کی گواہ ہے تاریخ
کسی ورق پہ کَہیں درگزر کا ذکر نہیں
بہت عجیب ہیں دانشورانِ نَو ضاؔمن 
نظر کا زعم، اور اہلِ نظر کا ذکر نہیں

ضامن جعفری

No comments:

Post a Comment