نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیں تو کس سے کہیں فسانہ
تمہیں خبر کیا، ہنسا ہے کیا کیا، رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ
بسی تو بستی ہمارے دل کی، چلو بالآخر اسی بہانے
ملا نہ کون و مکاں میں رنج و غم و الم کو کوئی ٹھکانہ
جہاں کی نیرنگیوں سے شکوہ ہو کیا کہ تم خود بدل گئے ہو
ہر اک طبیعت ہوئی ہے مضطر ہر اک کو بھولا ہے روزِ محشر
بہت پریشاں ہیں وہ بھی ضامنؔ! حضورِ حق ہے مرا فسانہ
ضامن جعفری
No comments:
Post a Comment