Sunday 23 November 2014

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیں تو کس سے کہیں فسانہ

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیں تو کس سے کہیں فسانہ
تمہیں خبر کیا، ہنسا ہے کیا کیا، رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ
بسی تو بستی ہمارے دل کی، چلو بالآخر اسی بہانے
ملا نہ کون و مکاں میں رنج و غم و الم کو کوئی ٹھکانہ
جہاں کی نیرنگیوں سے شکوہ ہو کیا کہ تم خود بدل گئے ہو
نظر اٹھاؤ، ادھر تو دیکھو! بنا رہے ہو عبث بہانہ
ہر اک طبیعت ہوئی ہے مضطر ہر اک کو بھولا ہے روزِ محشر
بہت پریشاں ہیں وہ بھی ضامنؔ! حضورِ حق ہے مرا فسانہ

ضامن جعفری

No comments:

Post a Comment