Friday 21 November 2014

چاند، تاروں کے جو انبار پہ رکھا ہوا ہے

چاند، تاروں کے جو انبار پہ رکھا ہوا ہے
اک دِیا ہم نے بھی دیوار پہ رکھا ہوا ہے
تم نے کاٹی ہے کہیں دِیپ جلاتے ہوئے رات
ہم نے بھی ہجر کو آزار پہ رکھا ہوا ہے
جب کسی طور بدلتا ہی نہیں تو ہم نے
اپنا دکھ عرصۂ دشوار پہ رکھا ہوا ہے
اپنی زلفیں میرے سینے سے ہٹا لو دیکھو
بوجھ اتنا دلِ بے کار پہ رکھا ہوا ہے
دل دریچے میں تجھے دیکھ کے احساس ہوا
جیسے بادل کوئی کہسار پہ رکھا ہوا ہے
میں نہیں جاؤں گا دہلیز سے تیری اٹھ کر
میرا جانا تِرے دیدار پہ رکھا ہوا ہے
منکرِ عشق تُو انکار بھی کر سکتا ہے
ہر گنہ ہم نے تو اقرار پہ رکھا ہوا ہے
حوصلہ ٹوٹ نہ جائے کہیں میرا کیونکہ
ایک عالم مِری دستار پہ رکھا ہوا ہے
مقتلِ شب کو دلیرانہ بنا دو ثاقبؔ
ایک جلتا ہوا سر دار پہ رکھا ہوا ہے

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment