Friday, 21 November 2014

ایک بے چینی سی در آئی مری وحشت میں

ایک بے چینی سی در آئی مِری وحشت میں
اس کی پھر یاد اتر آئی مری وحشت میں
ڈھونڈنے خود کو میں نکلا تھا، ملا کچھ بھی نہیں
مجھ کو وحشت ہی نظر آئی مری وحشت میں
میں نبھانے کو نبھا لیتا تِرے سب وعدے
کیا کروں ضد جو اتر آئی مری وحشت میں
تمکنت مجھ کو پریشان کیے جاتی ہے
شخصیت ایسے نکھر آئی مری وحشت میں
تیری بانہوں میں سمٹ آیا ہوں بے بس ہو کر
چاندنی جیسے ہی در آئی مری وحشت میں
کتنی امیدیں لیے کتنے نئے خواب لیے
میری تعبیر بھی در آئی مری وحشت میں
دکھ بٹانے مِرے تم آ تو گئے ہو ثاقبؔ
اور ویرانی اتر آئی مری وحشت میں

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment