Friday, 21 November 2014

ہم نے دیکھ رکھی ہیں منصفوں کی تحریریں

ہم نے دیکھ رکھی ہیں منصفوں کی تحریریں
اڑ رہی ہیں رستوں میں فیصلوں کی تحریریں
چاہے وہ زمیں پر ہو، یا ہو آسمانوں میں
ہاتھ میں نہیں ہوتیں قسمتوں کی تحریریں
خواب لکھنے بیٹھا ہے سوچ لے مگر اتنا
منہ چڑائیں گی تیرا خواہشوں کی تحریریں
موسمی پرندوں کی داستاں کو کیا پڑھنا
ختم ہی نہیں ہوتیں ہجرتوں کی تحریریں
پھر تو اپنا سایہ بھی اجنبی سا لگتا ہے
جب ہوا میں شامل ہوں سازشوں کی تحریریں
علم کے گلستاں میں کچھ نہیں بچا ثاقبؔ
کیا قلم کی رعنائی، کیا گلوں کی تحریریں

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment