Saturday, 22 November 2014

ستم کوشیاں ہیں ستم کاریاں ہیں

ستم کوشیاں ہیں، ستم کاریاں ہیں
بس اک دل کی خاطر یہ تیاریاں ہیں
چمن سوز، گلشن کی گلکاریاں ہیں
یہ کس سوختہ دل کی چنگاریاں ہیں
نہ بے ہوشیاں اب، نہ ہشیاریاں ہیں
محبت کی تنہا فسوں کاریاں ہیں
نہ وہ مستیاں ہیں، نہ سرشاریاں ہیں
خودی کا ہی احساس خودداریاں ہیں
محبت اثر کرتی ہے چپکے چپکے
محبت کی خاموش چنگاریاں ہیں
نگاہِ تجسس نے دیکھا جہاں تک
پرستاریاں ہی پرستاریاں ہیں
تجلی سے کہ دو ذرا ہاتھ روکے
بہت عام اب دل کی بیماریاں ہیں
نہ آزاد دل ہیں، نہ بیں قید نظریں
گرفتاریاں ہی گرفتاریاں ہیں
نہ ذوقِ تخیل، نہ ذوقِ تماشا
محبت ہے اب اور بیزاریاں ہیں
تغافل ہے اک شانِ محبوب لیکن
تغافل میں پنہاں خبرداریاں ہیں
کہاں میں، کہاں تازہ اشعارِ رنگیں
تِری اک توجہ کی گلکاریاں ہیں
ازل سے ہے صرفِ دُعا ذرہ ذرہ
خدا جانے کیا کچھ طلبگاریاں ہیں
بچھے جا رہے ہیں سبھی دیدۂ و دل
تِری آمد آمد کی تیاریاں ہیں
قدم ڈگمگائے، نظر بہکی بہکی
جوانی کا عالم ہے، سرشاریاں ہیں
جگر! زندگی لطف سے کٹ رہی ہے
غم آزاریاں ہیں، جنوں کاریاں ہیں
کہاں پھر یہ ہستی، کہاں ایسی ہستی
جگر کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں

جگر مراد آبادی

No comments:

Post a Comment