Friday 21 November 2014

پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے

پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے
آئی نہ صدا لیکن ٹوٹی ہوئی دھڑکن سے

کچھ اور بھی ساجن کے دھوکے میں یہ دل رہتا 
آتا نہ یقیں مجھ کو، گر اور کوئی کہتا
دیکھا اسے خود میں نے ملتے ہوئے سوتن سے
پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے

کیا ساتھ مرا دے گی جو ہاتھ کی ریکھا ہے
میں نے تو اِن آنکھوں سے کچھ اور ہی دیکھا ہے
لو آج ہوئے رخصت سُکھ چین مرے من سے
پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے

اب اور مرے دِل میں طوفاں نہ اٹھا دنیا
میرا تو گیا سب کچھ، کیا تجھ کو ملا دنیا
کر ڈالا جدا تو نے مجھ کو مرے ساجن سے
پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے

قتیل شفائی 

No comments:

Post a Comment