پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے
آئی نہ صدا لیکن ٹوٹی ہوئی دھڑکن سے
کچھ اور بھی ساجن کے دھوکے میں یہ دل رہتا
آتا نہ یقیں مجھ کو، گر اور کوئی کہتا
دیکھا اسے خود میں نے ملتے ہوئے سوتن سے
کیا ساتھ مرا دے گی جو ہاتھ کی ریکھا ہے
میں نے تو اِن آنکھوں سے کچھ اور ہی دیکھا ہے
لو آج ہوئے رخصت سُکھ چین مرے من سے
پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے
اب اور مرے دِل میں طوفاں نہ اٹھا دنیا
میرا تو گیا سب کچھ، کیا تجھ کو ملا دنیا
کر ڈالا جدا تو نے مجھ کو مرے ساجن سے
پتھر پہ گرا شیشہ اور ٹوٹ گیا چھن سے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment