Friday, 21 November 2014

دیا جلے ساری رات

دِیا جلے ساری رات
جل جل جائے، نِیر بہائے، مجھ بِرہن کے سات
دِیا جلے ساری رات

پہنے سر پر تاج اگن کا، بھیدی میرے دل کی جلن کا
لایا اس اندھیارے گھر میں اشکوں کی سوغات
دِیا جلے ساری رات

قسمت نے کیا رنگ دِکھایا، دُکھیا کے دُکھیا آیا
مانگ رہے ہم اِک دُوجے سے خوشیوں کی خیرات
دِیا جلے ساری رات

دُور کہیں باجے شہنائی، تڑپ رہی اپنی تنہائی
جیت کے آج وفا کی بازی، پیار نے کھائی مات
دِیا جلے ساری رات

پل بھر آس کے جگنو چمکے، پھیل گئے پھر سائے غم کے
چھوڑ دیا اِک ہرجائی نے تھام کے میرا ہات
دِیا جلے ساری رات

جل تھل جل تھل بھیگی پلکیں، پلک پلک میرے آنسو چھلکیں
برس رہی ہے دو نین سے بِن برسے برسات 
دِیا جلے ساری رات

ٹوٹ گئے کیوں پیا ر پرانے، میں جانوں یا دیپک جانے
جلتے جلتے جل جائے پر کہے نہ دل کی بات
دِیا جلے ساری رات

بھول گئیں موہے سب رنگ رلیاں، بکھر گئیں آشا کی کلیاں
ایسی چلی بِرہا کی آندھی ڈال رہے نا پات 
دِیا جلے ساری رات

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment