Thursday 20 November 2014

مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں

مولیٰ یہ تمنا ہے کہ جب جان سے جاؤں
جس شان سے آیا ہوں اسی شان سے جاؤں
بچوں کی طرح پیڑوں کی شاخوں سے میں کودوں
چڑیوں کی طرح اڑ کے میں کھلیان سے جاؤں
ہر لفظ مہکنے لگے، لکھا ہوا میرا
میں لپٹا ہوا یادوں کے لوبان سے جاؤں
مجھ میں کوئی ویرانہ بھی آباد ہے شائد
سانسوں نے بھی پوچھا تھا، بیابان سے جاؤں
زندہ مجھے دیکھے گی تو ماں چیخ اٹھے گی
کیا زخم لئے پیٹھ پہ میدان سے جاؤں
کیا سوکھے ہوئے پھول کی قسمت کا بھروسا
معلوم نہیں کب ترے گلدان سے جاؤں

منور رانا

No comments:

Post a Comment