Saturday 22 November 2014

موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے

موت کی رسم نہ تھی ان کی ادا سے پہلے
زندگی درد بنائی تھی، دوا سے پہلے
کاٹ ہی دیں گے قیامت کا دن اک اور سہی
دن گزارے ہیں محبت میں قضا سے پہلے
دو گھڑی کے لیے میزانِ عدالت ٹھہرے
کچھ مجھے حشر میں کہنا ہے خدا سے پہلے
تم جوانی کی کشاکش میں کہاں بھول اٹھے
وہ جو معصوم شرارت تھی ادا سے پہلے
دارِ فانی میں یہ کیا ڈھونڈھ رہے ہو فانیؔ
زندگی بھی کہیں ملتی ہے فنا سے پہلے

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment