Wednesday, 19 November 2014

محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا

محبتوں پہ بہت اعتماد کیا کرنا 
بھلا چکے ہیں اسے پھر سے یاد کیا کرنا 
وہ بے وفا ہی سہی اس پہ تہمتیں کیسی 
ذرا سی بات پہ اتنا فساد کیا کرنا 
کچھ اس لیے بھی میں پسپا ہوا ہوں مقتل سے 
کہ بہرِ مالِ غنیمتہ جہاد کیا کرنا 
مسافتیں ہی پہن لیں تو منزلوں کے لیے 
اب اعتبارِ رُخِ گرد و بار کیا کرنا 
نگاہ میں جو اترتا ہے دل سے کیوں اترے 
دل و نگاہ میں پیدا تضاد کیا کرنا 
میں اس لیے اسے اب تک چھو نہ سکا محسنؔ 
وہ آئینہ ہے اُسے سنگ زاد کیا کرنا ​

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment