Sunday, 23 November 2014

زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی

زندگی بھر کی شناسائی چلی جائے گی
گھر بسا لوں گا تو تنہائی چلی جائے گی
آنکھ کھلتے ہی عجب کشمکشِ ہجر میں ہوں
خواب دیکھوں گا، تو بینائی چلی جائے گی
جسکے حصے کے بھی دکھ ہوں، مِرے سینے میں اتار
پھر سمندر سے یہ گہرائی چلی جائے گی
وحشتیں یوں ہی الجھتی رہیں گلیوں سے تو پھر
بَین کرتی ہوئی شہنائی چلی جائے گی
حد سے بڑھ جائیں گی بیمارئ دل کی باتیں
یار لوگوں سے مسیحائی چلی جائے گی
تیرے بارے میں کوئی رائے کہاں سے لاؤں
جھوٹ بولوں گا تو سچائی چلی جائے گی

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment