یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے
اس ایک بات پہ دنیا سے جنگ جاری ہے
اڑان والو! اڑانوں پہ وقت بھاری ہے
پروں کی اب کے نہیں حوصلوں کی باری ہے
میں قطرہ ہو کے بھی طوفان سے جنگ لیتا ہوں
اسی سے جلتے ہیں صحرائے آرزو میں چراغ
یہ تشنگی تو مجھے زندگی سے پیاری ہے
کوئی بتائے یہ اس کے غرورِ بے جا کو
وہ جنگ ہم نے لڑی ہی نہیں، جو ہاری ہے
ہر اک سانس پہ پہرا ہے بے یقینی کا
یہ زندگی تو نہیں موت کی سواری ہے
دعا کرو کہ سلامت رہے میری ہمت
یہ اک چراغ ہے کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
وسیم بریلوی
No comments:
Post a Comment