Thursday 20 November 2014

یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے

یہ ہے تو سب کے لیے ہو یہ ضد ہماری ہے
اس ایک بات پہ دنیا سے جنگ جاری ہے
اڑان والو! اڑانوں پہ وقت بھاری ہے
پروں کی اب کے نہیں حوصلوں کی باری ہے
میں قطرہ ہو کے بھی طوفان سے جنگ لیتا ہوں
مجھے بچانا سمندر کی ذمہ داری ہے
اسی سے جلتے ہیں صحرائے آرزو میں چراغ
یہ تشنگی تو مجھے زندگی سے پیاری ہے
کوئی بتائے یہ اس کے غرورِ بے جا کو
وہ جنگ ہم نے لڑی ہی نہیں، جو ہاری ہے
ہر اک سانس پہ پہرا ہے بے یقینی کا
یہ زندگی تو نہیں موت کی سواری ہے
دعا کرو کہ سلامت رہے میری ہمت
یہ اک چراغ ہے کئی آندھیوں پہ بھاری ہے

وسیم بریلوی

No comments:

Post a Comment