کیا خزانے مری جاں، ہجر کی شب یاد آئے
تیرا چہرہ، تیری آنکھیں، تیرے لب یاد آئے
ایک تُو تھا جسے غربت میں پکارا دل نے
ورنہ بچھڑے ہوئے احباب تو سب یاد آئے
ہم نے ماضی کی سخاوت پہ جو پل بھر سوچا
پھول کھلنے کا جو موسم مرے دل میں اترا
تیرے بخشے ہوئے کچھ زخم عجب یاد آئے
اب تو آنکھوں میں فقط دھول ہے کچھ یادوں کی
ہم اسے یاد بھی آئے ہیں تو کب یاد آئے
بھول جانے میں وہ ظالم ہے بلا کا ماہر
یاد آنے پہ بھی آئے تو غضب یاد آئے
یہ خنک رت یہ نئے سال کا پہلا لمحہ
دل کی خواہش ہے کہ محسنؔ کوئی اب یاد آئے
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment