Saturday 22 November 2014

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو

پھر بھی ہے تم کو مسیحائی کا دعویٰ دیکھو
مجھ کو ديکھو، ميرے مرنے کی تمنا ديکھو
جرمِ  نظارہ پہ کون اتنی خوشامد کرتا
اب وہ روٹھے ہيں لو اب اور تماشا ديکھو
دو ہی دن ميں وہ بات ہے نہ وہ چاہ نہ پيار
ہم نے پہلے ہی يہ تم سے نہ کہا تھا ديکھو
ہم نہ کہتے تھے بناوٹ سے ہے سارا غصہ
ہنس کے لوپھر وہ انہوں نے ہميں ديکھا، ديکھو
مستئ حُسن سے اپنی بھی نہيں تم کو خبر
کيا سنو عرض ميری، حال ميرا کيا ديکھو
گھر سے ہر وقت نکل آتے ہو کھولے ہوئے بال
شام ديکھو، نہ ميری جان سويرا ديکھو
خانۂ  جاں ميں نمودار ہے اک پيکرِ نور
حسرتو! آؤ، رخِ يار کا جلوہ ديکھو
سامنے سب کے مناسب نہيں ہم پر يہ عتاب
سر سے ڈھل جائے نہ غصے ميں دوپٹہ ديکھو
مر مٹے ہم تو کبھی ياد بھی تم نے نہ کيا
اب محبت کا نہ کرنا کبھی دعویٰ ديکھو
دوستو! ترکِ محبت کی نصيحت ہے فضول
اور نہ مانو تو دلِ زار کو سمجھا ديکھو
سر کہيں، بال کہيں، ہاتھ کہيں، پاؤں کہيں
اس کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا ديکھو
اب وہ شوخی سے يہ کہتے ہيں، ستمگر جو ہيں ہم
دل کسی اور سے کچھ روز کو بہلا ديکھو
ہوسِ ديد مٹی ہے نہ مٹے گی، حسرتؔ
ديکھنے کے لئے چاہو انہيں جتنا ديکھو

حسرت موہانی

No comments:

Post a Comment