میری اپنائی ہوئی قدروں نے ہی نوچا مجھے
تُو نے کس تہذیب کے پتھر سے لا باندھا مجھے
میں نے ساحل پر جلا دیں مصلحت کی کشتیاں
اب کسی کی بے وفائی کا نہیں کھٹکا مجھے
دست و پابستہ کھڑا ہوں پیاس کے صحراؤں میں
چند کرنیں جو مرے کاسے میں ہیں ان کے عوض
شب کے دروازے پہ بھی دینا پڑا پہرا مجھے
ساتھیو! تم ساحلوں پر چین سے سوئے رہو
لے ہی جائے گا کہیں بہتا ہوا دریا مجھے
نثار ناسک
No comments:
Post a Comment