Saturday, 3 February 2018

عطیہ؛ میں جب جاؤں گا اس دنیا میں

عطیہ

میں جب جاؤں گا 
اس دنیا میں 
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا
کہ ڈھلتی شام میں 
سڑکوں کے دو رویہ
گرے سوکھے ہوئے پتوں پہ
جب جوڑے چلیں 
ہاتھوں میں ڈالے ہاتھ 
اور سسکاریوں کے درمیاں 
ہنستے ہوئے جذبوں کے گھنگرو
بج اٹھیں 
تو یہ آنکھیں انہیں دیکھیں 
مجھے روئیں 
میں جب جاؤں گا 
اس دنیا میں 
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

تلاش رزق میں نکلے پرندے 
مہرباں سورج تلے
اڑتے ہوئے تھک ہار کر 
جب شام اپنے گھونسلوں
کی سمت لوٹیں 
تو انہیں دیکھیں 
اسے ڈھونڈیں 
میں جب جاؤں گا 
اس دنیا میں 
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

سنہری صندلیں شاموں کو
جب مے کے لئے 
ترسے ہوئے شاعر
اداس اجڑے ہوئے
چہرے لئے 
سڑکوں پہ آ جائیں 
تو یہ آنکھیں 
انہیں روئیں 
مجھے ڈھونڈیں 
میں جب جاؤں گا 
اس دنیا میں 
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

مساجد کے مناروں سے بھی
اونچی بلڈنگوں کے درمیاں 
بازار میں 
روٹی کے اک ٹکڑے کی خاطر 
سانولا معصوم سا لڑکا کوئی
روتا ہوا دیکھیں
تو ان آنکھوں میں 
دو آنسو امڈ آئیں 
جو آنسو دوسروں کے ہوں 
کہ وہ محسوس کر پائیں 
میں ان کے ملک میں 
جتنے برس زندہ رہا 
کس کربلا میں تھا
میں جب جاؤں گا 
اس دنیا میں
اپنی دونوں آنکھیں چھوڑ جاؤں گا

نثار ناسک

No comments:

Post a Comment