اس حسن نے آنکھ کے امبر پر، جو نقش ابھارا ایسا تھا
کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا
پھر تیز ہوا نے پاؤں میں، ڈالی زنجیر بگولے کی
سو ہم نے گریباں چاک کیا، موسم کا اشارہ ایسا تھا
تھی تو افراط شرابوں کی، لیکن ہم پیاسے کیا کرتے
ناداری ۔۔۔۔ ناداری ۔۔۔۔ ہماری نسلوں کی
مر کے بھی نہ جو بے باق ہوا، جینے کا خسارا ایسا تھا
قاتل کو بھی کچھ دقّت نہ ہوئی، مرنا بھی ہمیں آسان لگا
سر فخر سے اونچا رکھنے کا انداز گوارا ایسا تھا
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment