Tuesday 6 February 2018

ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا

ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف میں
ہے کہیں سے قافلے کا سلسلہ ٹوٹا ہوا
وائے مجبوری کہ اپنا مسخ چہرہ دیکھئے
سامنے رکھا گیا ہے آئینہ ٹوٹا ہوا
خود بخود بدلے تو بدلے یہ زمیں، اس کے سوا
کیا بشارت دے ہمارا حوصلہ ٹوٹا ہوا
خواب سے آگے شکستِ خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا
کچھ تغافل بھی خبرداری میں شامل کیجئے
ورنہ کر ڈالے گا پاگل، واہمہ ٹوٹا ہوا

آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment