Tuesday, 6 February 2018

یا پھونک سے چراغ بجھا دے حواس کا

یا پھونک سے چراغ بجھا دے حواس کا
یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
دم گھٹ گیا ہے لمسِ لطافت سے اے خدا
اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا
ہر آب جُو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا
یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا
جب دے سکا نہ کوئی گواہی سرِ صلیب
جرمانہ شہر پر ہوا خوف و ہراس کا
گھر کے سکوت نے تو ڈرایا بہت مگر
وجہِ سکوں تھا شور میرے آس پاس کا
ہر دستِ پُر فسوں، یدِ بیضا دکھائی دے
اے روشنی پرست! یہ منظر ہے یاس کا
دستک ہر اک مکان پہ دینا پڑی مجھے
مقصود تھا سراغ مرے غم شناس کا

آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment