Tuesday, 6 February 2018

ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا

ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا
نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
کچھ روشنیِٔ طبع ضروری ہے، وگرنہ
ہاتھوں میں اتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا
وہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدم
چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا
کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے
جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا اندھیرا
دیتی ہے یہی وقت کی توریت گواہی
زر کا جو اجالا ہے وہ ہے زر کا اندھیرا
ہر آنکھ لگی ہے افق دار کی جانب
سورج سے کرن مانگتا ہے ڈر کا اندھیرا

آفتاب اقبال شمیم

No comments:

Post a Comment