ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا
نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
کچھ روشنیِٔ طبع ضروری ہے، وگرنہ
ہاتھوں میں اتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا
وہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدم
کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے
جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا اندھیرا
دیتی ہے یہی وقت کی توریت گواہی
زر کا جو اجالا ہے وہ ہے زر کا اندھیرا
ہر آنکھ لگی ہے افق دار کی جانب
سورج سے کرن مانگتا ہے ڈر کا اندھیرا
آفتاب اقبال شمیم
No comments:
Post a Comment