Tuesday, 6 February 2018

میں اپنے لہجے کی تلخیوں سے

میں اپنے لہجے کی تلخیوں سے
تمیارے خوابوں کے سارے موسم جلا رہا تھا
میں اپنے لفظوں کے رُوکھے پن سے 
تمہارے اجڑے چمن کو ابتر بنا رہا تھا
میں اپنے اندر کی ہر تھکن کو 
تمہارے بوجھل بدن کی زینت بنا رہا تھا
میں اپنے دامن میں خوشیاں بھر کے
تمہارے دل میں دکھوں کا میلہ سجا رہا تھا
برا نہیں میں بہت برا ہوں
وفا کے دامن پہ داغ کہہ لو
جو سب سے گندا لقب تمہارے خیال میں ہے
میں اس لقب سے بھی آگے خود کو سمجھ رہا ہوں
جو تم نے سوچا مجھے بھی اس پہ گماں نہیں ہے
"میں جب سے اب تک وہیں کھڑا ہوں"
جو فاصلہ ہے تمہارے قدموں کا طے شدہ ہے
ذرا رکو تم! سنو یہ عادت بہت بری ہے
جو تم کہو گے وہی چلے گا 
تمہارے نقشِ قدم پہ چل کے 
میں پھر سے خود کو منانے آیا
میں تم سے تم کو ملانے آیا

عابی مکھنوی

No comments:

Post a Comment