Sunday, 4 February 2018

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے 
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
کسی 'کم ظرف' کو 'با ظرف' اگر کہنا پڑے 
ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی، لیکن 
اپنے وعدوں سے مُکر جانے کو جی چاہتا ہے
قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے 
ذات میں اپنی بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
اپنی پلکوں پہ سجائے ہوئے یادوں کے دِیے 
اس کی نیندوں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
ایک اجڑے ہوئے ویران کھنڈر میں آزرؔ 
نا مناسب ہے مگر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر

No comments:

Post a Comment