یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
خیال، خواب، فسانے، کہانیاں تھیں، مگر
وہ خط تجھے بھی لکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
کہاں سے مہکے گی ہونٹوں پہ لمس کی خوشبو
کسی کو میں نے چھوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
چراغ پلکوں پہ آزرؔ کسی کی یادوں کا
قسم خدا کی جلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
کفیل آزر
No comments:
Post a Comment