Sunday 4 February 2018

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد

یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد
ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا
کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد
مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے
کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
خیال، خواب، فسانے، کہانیاں تھیں، مگر
وہ خط تجھے بھی لکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد
کہاں سے مہکے گی ہونٹوں پہ لمس کی خوشبو
کسی کو میں نے چھوا ہی نہیں ہے تیرے بعد
چراغ پلکوں پہ آزرؔ کسی کی یادوں کا
قسم خدا کی جلا ہی نہیں ہے تیرے بعد

کفیل آزر

No comments:

Post a Comment