Sunday 4 February 2018

تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا

تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا
آنکھوں میں سو رہا تھا اندھیرا تھکا ہوا
سینے میں جیسے تیر سا پیوست ہو گیا
تھا کتنا دل خراش اداسی کا قہقہہ
یوں بھی ہوا کہ شہر کی سڑکوں پہ بارہا
ہر شخص سے میں اپنا پتہ پوچھتا پھرا
برسوں سے چل رہا ہے کوئی میرے ساتھ ساتھ
ہے کون شخص اس سے میں اک بار پوچھتا
دل میں اتر کے بجھ گئی یادوں کی چاندنی
آنکھوں میں انتظار کا سورج پگھل گیا
چھوڑی ہے ان کی چاہ تو اب لگ رہا ہے یوں
جیسے میں اتنے روز اندھیروں میں قید تھا
میں نے ذرا سی بات کہی تھی مذاق میں
تم نے ذرا سی بات کو اتنا بڑھا لیا
کمرے میں پھیلتا رہا سگریٹ کا دھواں
میں بند کھڑکیوں کی طرف دیکھتا رہا
آزرؔ یہ کس کی سمت بڑھے جا رہے ہیں لوگ
اس شہر میں تو میرے سوا کوئی بھی نہ تھا

کفیل آزر

No comments:

Post a Comment