چہرہ سرسوں کی طرح زلف گھٹاؤں والی
شہر میں آئی ہے لڑکی کوئی گاؤں والی
نیل پالش کی جگہ اس لیے ناخن پہ ملا
خون کی خوشبو لگی مجھ کو حناؤں والی
ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتے مِرے شہر کے لوگ
دھوپ میں جینا پڑا ہے کسی مجبوری سے
عمر تھی میری وگرنہ ابھی چھاؤں والی
اس لیے اپنے قبیلے میں الگ ہوں سب سے
دل بیاباں ہے مِرا، آنکھ خلاؤں والی
خامشی دل میں لگا تار دھڑکتی جائے
لٹ گئی بستی ہر اک اپنی صداؤں والی
میں نے اس عمر میں بھی تجھ سے دعائیں مانگیں
اے خدا! عمر نہیں تھی جو دعاؤں والی
سعدیہ صفدر سعدی
No comments:
Post a Comment