Saturday, 3 February 2018

جہیز کم تھا بہو آگ میں اتاری ہے

جہیز کم تھا، بہو آگ میں اتاری ہے 
ہمارے گاؤں میں اب تک یہ رسم جاری ہے
قدم اٹھاؤں گی تو خاک پر لہو ہو گا 
پڑی ہے پیر جو زنجیر مجھ سے بھاری ہے
ردائے ہجر پہ جو درد کی کڑھائی کی
تمہاری یاد میں یہ پہلی دستکاری ہے
سکوتِ شام کا منظر ہے اور بجھی آنکھیں 
اداسی حد سے بڑھی ہے تو کتنی پیاری ہے
یہ میرا دل نہیں، اجڑا ہوا مکاں ہے کوئی 
یہ میری آنکھ نہیں، زخموں کی کیاری ہے

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment