دن نہیں ڈھل رہا
کنارے پر کھڑی ہوں دشت جیسی
دہکتی راکھ آنکھیں موند کر میں
نجانے کون سا دکھ ہے جبیں پر
جسے پڑھ کر بھنور مجھ پر ہنسے ہیں
لکیریں کھینچتی ہوں ریت پر جو
ہواؤں میں مگر نوحہ کناں ہیں
اداسی شہر کی پیچھے پڑی ہے
مِرا جنگل سراپا جل رہا ہے
نہ سورج کی چمک کم ہو رہی ہے
نہ یادوں کے بگولے مر رہے ہیں
نہ اشکوں سے بھرا دن ڈھل رہا ہے
دروں میرے اداسی ناچتی ہے
بدن میں روح پیاسی ناچتی ہے
ہے کتنا ہجر کا سورج جواں دیکھ
مِری آنکھوں سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ
محبت میرے سجدوں میں نہاں ہے
مِرے سر سا کہاں وہ آستاں ہے
فقط یادیں مسلط ہیں ہمہ تن
مِرے جلتے دنوں پر اور شبوں پر
سخن مردہ ہوئے جاتے ہیں دیکھو
مِری بنجر زباں پتھر لبوں پر
اسے معلوم ہے میں جی رہی ہوں
خوشی سے زہر غم کا پی رہی ہوں
کوئی تسبیح کوئی ورد کچھ بھی
نہیں اب مجھ کوکرنا چپ رہوں گی
تمہارا وصل تو آیا نہیں ہاتھ
تمہارے ہجر کو ہنستے سہوں گی
سعدیہ صفدر سعدی
No comments:
Post a Comment