Saturday 3 February 2018

دن نہیں ڈھل رہا فقط یادیں مسلط ہیں

دن نہیں ڈھل رہا

کنارے پر کھڑی ہوں دشت جیسی
دہکتی راکھ آنکھیں موند کر میں
نجانے کون سا دکھ ہے جبیں پر 
جسے پڑھ کر بھنور مجھ پر ہنسے ہیں
لکیریں کھینچتی ہوں ریت پر جو 
پرندے بن رہے ہیں اڑ رہے ہیں
ہواؤں میں مگر نوحہ کناں ہیں 
اداسی شہر کی پیچھے پڑی ہے
مِرا جنگل سراپا جل رہا ہے 
نہ سورج کی چمک کم ہو رہی ہے
نہ یادوں کے بگولے مر رہے ہیں 
نہ اشکوں سے بھرا دن ڈھل رہا ہے
دروں میرے اداسی ناچتی ہے 
بدن میں روح پیاسی ناچتی ہے
ہے کتنا ہجر کا سورج جواں دیکھ 
مِری آنکھوں سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ
محبت میرے سجدوں میں نہاں ہے 
مِرے سر سا کہاں وہ آستاں ہے
فقط یادیں مسلط ہیں ہمہ تن
مِرے جلتے دنوں پر اور شبوں پر
سخن مردہ ہوئے جاتے ہیں دیکھو 
مِری بنجر زباں پتھر لبوں پر
اسے معلوم ہے میں جی رہی ہوں 
خوشی سے زہر غم کا پی رہی ہوں 
کوئی تسبیح کوئی ورد کچھ بھی 
نہیں اب مجھ کوکرنا چپ رہوں گی
تمہارا وصل تو آیا نہیں ہاتھ 
تمہارے ہجر کو ہنستے سہوں گی

سعدیہ صفدر سعدی

No comments:

Post a Comment