تم اس خرابے میں چار، چھے دن ٹہل گئی ہو
سو عین ممکن ہے دل کی حالت بدل گئی ہو
تمام دن اس دعا میں کٹتا ہے کچھ دنوں سے
میں جاؤں کمرے میں تو اداسی نکل گئی ہو
کسی کے آنے سے ایسے ہلچل ہوئی ہے مجھ میں
یہی نہ ہو میں ہلوں تو گرنے لگے برادہ
دکھوں کی دیمک، بدن کی لکڑی نگل گئی ہو
یہ نیند، خوابوں میں یوں پٹختی ہے مجھ کو جیسے
نئے جزیرے پہ وہیل مچھلی اگل گئی ہو
یہ چھوٹے چھوٹے کئی حوادث جو ہو رہے ہیں
کسی کے سر سے بڑی مصیبت نہ ٹل گئی ہو
ہمارا ملبہ ہمارے قدموں میں گر پڑا ہے
پلیٹ میں جیسے موم بتی پگھل گئی ہو
عمیر نجمی
No comments:
Post a Comment