لبوں پہ حرفِ رجز ہے زِرہ اتار کے بھی
میں جشنِ فتح مناتا ہوں جنگ ہار کے بھی
اسے لُبھا نہ سکا میرے بعد کا موسم
بہت اداس لگا خال و خد سنوار کے بھی
اب ایک پَل کا تغافل بھی سہہ نہیں سکتے
وہ لمحہ بھر کی کہانی کہ عمر بھر میں کہی
ابھی تو خود سے تقاضے تھے اختصار کے بھی
زمین اوڑھ لی ہم نے پہنچ کے منزل پر
کہ ہم پہ قرض تھے کچھ گردِ رہگزار کے بھی
مجھے نہ سن میرے بے شکل اب دکھائی تو دے
میں تھک گیا ہوں فضا میں تجھے پکار کے بھی
میری دعا کو پلٹا تھا پھر اِدھر محسنؔ
بہت اجاڑ تھے منظر افق سے پار کے بھی
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment