خوب ہے شوق کا یہ پہلُو بھی
میں بھی برباد ہو گیا تُو بھی
حسنِ مغموم، تمکنت میں تری
فرق آیا نہ یک سرِ مُو بھی
حسن کہتا تھا چھیڑنے والے
ہاے اُس کا موج خیز بدن
میں تو پیاسا رہا لبِ جُو بھی
یاد آتے ہیں معجزے اپنے
اور اُس کے بدن کا جادُو بھی
یاد سے اُس کی ہے مِرا پرہیز
اے صبا اب نہ آئیو تُو بھی
ہیں یہی جونؔ ایلیا جناب
سخت مغرور بھی تھے بدخُو بھی
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment