Friday 17 October 2014

کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے

کوئی حالت بھی اب طاری نہیں ہے 
تو کیا یہ دل کی ناداری نہیں ہے 
میں ہوں ایسے سفر پر جانے والا 
کہ جس کی کوئی تیاری نہیں ہے 
ہوں ضد پر اس طرح تیرِ فنا کی 
ابھی جیسے میری باری نہیں ہے 
کہوں کیا، کتنا بے آرام ہوں میں
میری امید ابھی ہاری نہیں ہے 
میں اپنے آپ سے ہوں غیر کتنا 
کسی سے بھی میری یاری نہیں ہے 
ہوں بے حد تنگ اپنے آپ سے میں
کہ اب تک خود سے بیزاری نہیں ہے 
یہ میری زندگی، میری اذیت 
ہے ایسا وار، جو کاری نہیں ہے 
علم اٹھتے تو ہیں اب بھی ہمارے 
مگر وہ گریہ و زاری نہیں ہے 
گلہ کر اب بچھڑنے میں ہمارے
میری جان! کوئی دشواری نہیں ہے 

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment