کیوں نہ مجھ کو جان سے پیارے ہوں زخموں کے چراغ
یہ نشانی کی نشانی ہیں، چراغوں کے چراغ
قصرِ شاہی میں بپا تھا جشنِ مرگِ روشنی
آندھیاں جب چاٹتی پھرتی تھیں خیموں کے چراغ
شوق جلنے کا ہمیں، ارباب کو بجھنے کا ڈر
ہم منڈیروں کے دیئے وہ بند کمروں کے چراغ