Thursday 1 February 2018

میں کٹ نہ جاؤں کہیں زندگی کے دھارے سے

میں کٹ نہ جاؤں کہیں زندگی کے دھارے سے
بلا رہا ہے کوئی دوسرے کنارے سے
چلو یہ مان لیا، داغدار ہے وہ شخص
تو اس کے نین ہیں کیوں آج بھی کنوارے سے
جو دل میں زلزلے آئے تو آنکھ میں سیلاب
تباہیاں یہ مچی ہیں تیرے اشارے سے
رقیب زندہ ہے اب تک ہوس کی بانبی میں
یہ سانپ وہ ہے جو مرتا نہیں ہے مارے سے
تری وفائیں بٹیں سب میں تھوڑی تھوڑی سی
بس اک دِلاسا ملا مجھ کو تیرے دوارے سے
جو تُو ہے پیار کا بادل تو بار باربرس
نہ بھیگ پاؤں گا میں تیرے اک نظارے سے
جو تُو کہے تو قتیلؔ اس کا ڈھانپ دوں چہرہ
سنا ہے خوش نہیں تُو شام کے ستارے سے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment