میں کٹ نہ جاؤں کہیں زندگی کے دھارے سے
بلا رہا ہے کوئی دوسرے کنارے سے
چلو یہ مان لیا، داغدار ہے وہ شخص
تو اس کے نین ہیں کیوں آج بھی کنوارے سے
جو دل میں زلزلے آئے تو آنکھ میں سیلاب
رقیب زندہ ہے اب تک ہوس کی بانبی میں
یہ سانپ وہ ہے جو مرتا نہیں ہے مارے سے
تری وفائیں بٹیں سب میں تھوڑی تھوڑی سی
بس اک دِلاسا ملا مجھ کو تیرے دوارے سے
جو تُو ہے پیار کا بادل تو بار باربرس
نہ بھیگ پاؤں گا میں تیرے اک نظارے سے
جو تُو کہے تو قتیلؔ اس کا ڈھانپ دوں چہرہ
سنا ہے خوش نہیں تُو شام کے ستارے سے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment