کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے
مجھ کو اس ویرانے سے ڈر لگتا ہے
شہر میں ہے یہ حال ترے دیوانے کا
جس رستے سے گزرے، پتھر لگتا ہے
چوٹ بھی کھا کر جب وہ چومے پتھر کو
اس نے ہاتھ چھڑا کر موڈ بگاڑ دیا
اب وہ مجھ کو زہر برابر لگتا ہے
جو پروانہ اپنی جان کی فکر کرے
وہ عشاق کی ذات سے باہر لگتا ہے
آیا جس کے ہاتھ پرایا آئینہ
اپنی ذات میں وہ اسکندر لگتا ہے
نہر تو بہتی ہے شیریں کی آنکھوں سے
تیشہ کیوں فرہاد کے سر پر لگتا ہے
کھینچا ہے جو خلد کا نقشہ واعظ نے
مجھ کو اپنی سوچ سے کمتر لگتا ہے
کام دکھایا اند رکی مرجھاہٹ نے
ہر منظر پت جھڑ کا منظر لگتا ہے
کون مسیحا بنا تِرا دمساز قتیلؔ
حال تِرا پہلے سے بہتر لگتا ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment