Thursday, 1 February 2018

کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے

کہنے کو تو پیارا سا گھر لگتا ہے
مجھ کو اس ویرانے سے ڈر لگتا ہے
شہر میں ہے یہ حال ترے دیوانے کا
جس رستے سے گزرے، پتھر لگتا ہے
چوٹ بھی کھا کر جب وہ چومے پتھر کو
ایسے میں انسان پیمبر لگتا ہے
اس نے ہاتھ چھڑا کر موڈ بگاڑ دیا
اب وہ مجھ کو زہر برابر لگتا ہے
جو پروانہ اپنی جان کی فکر کرے
وہ عشاق کی ذات سے باہر لگتا ہے
آیا جس کے ہاتھ پرایا آئینہ
اپنی ذات میں وہ اسکندر لگتا ہے
نہر تو بہتی ہے شیریں کی آنکھوں سے
تیشہ کیوں فرہاد کے سر پر لگتا ہے
کھینچا ہے جو خلد کا نقشہ واعظ نے
مجھ کو اپنی سوچ سے کمتر لگتا ہے
کام دکھایا اند رکی مرجھاہٹ نے
ہر منظر پت جھڑ کا منظر لگتا ہے
کون مسیحا بنا تِرا دمساز قتیلؔ
حال تِرا پہلے سے بہتر لگتا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment