دل جلتا ہے شام سویرے
ایک چراغ اور لاکھ اندھیرے
بھیگی پلکیں نیند سے خالی
چین کے دشمن رین بسیرے
لوگ سمجھتے ہیں سودائی
اپنا اپنا درد ہے، ورنہ
کِس کی گلیاں کیسے پھیرے
ان کا وہ معصوم تبسم
جیسے کوئی پھول بکھیرے
اے غمِ دوراں اے غمِ جاناں
دل ہے ایک، ستم بہترے
کیسے پہنچے نیند آنکھوں تک
بیٹھا ہے دل راستہ گھیرے
تُو ہی بتا یہ درد ہے کیسا
پلکیں میری! آنسو تیرے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment