Thursday, 1 February 2018

دل جلتا ہے شام سویرے

دل جلتا ہے شام سویرے
ایک چراغ اور لاکھ اندھیرے
بھیگی پلکیں نیند سے خالی
چین کے دشمن رین بسیرے
لوگ سمجھتے ہیں سودائی
پیار نے اپنے بھی دن پھیرے
اپنا اپنا درد ہے، ورنہ
کِس کی گلیاں کیسے پھیرے
ان کا وہ معصوم تبسم
جیسے کوئی پھول بکھیرے
اے غمِ دوراں اے غمِ جاناں
دل ہے ایک، ستم بہترے
کیسے پہنچے نیند آنکھوں تک
بیٹھا ہے دل راستہ گھیرے
تُو ہی بتا یہ درد ہے کیسا
پلکیں میری! آنسو تیرے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment