فلیش بیک
اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
لوگ اپنی گلی کے یاد نہیں
حافظے پر بھی اعتماد نہیں
کون رہتا تھا اس محلے میں
کس کی خاطر میں روز بن ٹھن کر
کون خوش ہوتا، کون جلتا تھا
نام کس کا لہو میں چلتا تھا
اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
سارے دیوار و در بدل گئے ہیں
رستے بدلے ہیں گھر بدل گئے ہیں
سب پرانے نشان جل گئے ہیں
یہ جو دروازہ، جس پہ تالہ ہے
یہ کبھی بند ہی نہ ہوتا تھا
صاف ستھری تھیں اس کی دہلیزیں
اور یہاں گند بھی نہ ہوتا تھا
یہ جو دیوار سی اٹھی ہوئی ہے
اس جگہ، اس سے پہلے رستہ تھا
رستہ، ہر دم جو ہنستا بستا تھا
لوگ آتے تھے لوگ جاتے تھے
رات دن جن پہ ہُن برستا تھا
اور وہ سامنے جو تختی ہے
جس پہ لکھی ہے افتتاح کی بات
اس جگہ سبز برگ پیپل کا
ایک بوڑھا درخت ہوتا تھا
جس کی ٹہنی پہ لِیرا باندھنے سے
پیسے ملتے تھے، بخت ہوتا تھا
کالے جادو کا توڑ تھے لِیرے
عمر بھر کا نچوڑ تھے لِیرے
اتنی مدت کے بعد لوٹا ہوں
سارے پینڈُوس کھیلنے والے
شہر کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں
کوئی فوجی ہے کوئی پُلسیا ہے
کوئی دوبئی، کوئی ابوظہبی
کوئی مسقط چلا گیا ہوا ہے
اور کچھ مر گئے ہیں بے مقصد
ایک دو بچ گئے مگر وہ سب
چڑچڑے مالیخولیائی ہیں
ایک درزی ہے دو قصائی ہیں
تیرے گھر نے تو بس رُلا ہی دیا
کیا چمکتی، دمکتی بلڈنگ تھی
چھت پہ لَٹھے کبوتروں کی قطار
ایک دم سے ہوا میں اٹھتی تو
پھڑپھڑاہٹ فضا میں گونجتی تھی
اور مُمٹی پہ ایک پیتل کا
چاند تھا اور چند تارے تھے
گل گیا چاند، سڑگئے تارے
رنگ و روغن اکھڑ گئے سارے
اب بھی منڈیر ہے وہیں پہ مگر
اب غُٹر غوں نہیں کبوتروں کی
گھر ترا بھوت گھر بنا ہوا ہے
رنگتیں اڑ گئیں چبوتروں کی
ادریس آزاد
No comments:
Post a Comment