Friday 2 February 2018

مری شراب تمنا مرے گلاس میں ہے

مِری شرابِ تمنا مِرے گلاس میں ہے
اسی لیے تو یہ منظر ابھی حواس میں ہے
نہ اشک پی کے میسر ہوئی وہ سیرابی
جو انتظار کے دو پتھروں کی پیاس میں ہے
میں اپنے آپ سے رہتا ہوں دور عید کے دن
اک اجنبی سا تکلف نئے لباس میں ہے
غلیظ مٹی نے پیڑوں کو سُوکھنے نہ دیا
یہ ہے ثبوت کہ فطرت بھی التباس میں ہے
کٹے پھٹے ہوئے دل کو نصیب ہوتا ہے
وہی گداز جو دُھنکی ہوئی کپاس میں ہے
بیان کرنے کو سات آسمان تھوڑے ہیں
جو کائنات کی وسعت خدا شناس میں ہے
اٹھا اٹھا کے عداوت کا بوجھ کاندھوں پہ، اب
جھکی ہوئی کوئی دیوار التماس میں ہے

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment